کشمیرمیں سحرکے وقت ڈھول بجا کر لوگوں کو جگانے کی روایت برقرار

 



وادی کشمیر میں ماہ رمضان المبارک کی پہلی سحری کے وقت بستیوں میں ڈھول بجنے کی گونج سنائی دیتی ہے جس کا سلسلہ آخری سحری تک تواتر کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ وادی کے شہر و دیہات میں سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کے لئے ڈھول بجایا جاتا ہے اور ڈھول بجانے والے کو ‘سحر خوان’ کہا جاتا ہے جو رات کے سناٹے اور گھپ اندھیرے میں جان بکف اپنے مقررہ علاقہ میں گلی گلی گھومتے ہوئے ڈھول بجا کر اور”وقت سحر“کی آوازیں دے کر لوگوں کو جگاتا ہے ۔عصر حاضر میں جدید ترین ٹکنالوجی جیسے موبائل فون، لاﺅڈ اسپیکر، ڈیجیٹل الارم کی سہولیات کے باوجود بھی وادی میں ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانے کی روایت نہ صرف برابر برقرار ہے بلکہ مذکورہ تمام ترسہولیات سے بہر ور ہونے کے باوجود بھی مسجد کمیٹیاں یا محلہ کمیٹیاں ”سحر خوانوں “کا بندوبست کرتی ہیں۔ماہ رمضان میں سحری کے وقت ڈھول بجنے کی آواز گونجتے ہی وادی کا بچہ بچہ سمجھ جاتا ہے کہ سحری کے لئے جاگنے کا وقت ہے ۔سرحدی ضلع کپوارہ کے کلاروس علاقے سے تعلق رکھنے والا محمد شکور شہر سری نگر کے نور باغ، صفا کدل و ملحقہ علاقوں کے لوگوں کے لئے سحری کے وقت ڈھول بجا کر جگانے کی خدمت گذشتہ پانچ برسوں سے انجام دے رہا ہے ۔بائیس سالہ محمد شکور نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ کام، جس میں خطرہ بھی ہے ، اپنی دنیاوی زندگی کی نہیں بلکہ اخروی زندگی کی آبادی کے لئے کرتا ہوں۔انہوں نے کہا: ‘میں گذشتہ پانچ برسوں سے یہ کام کرتا ہوں میرا مقصد صرف ثواب حاصل کرنا ہے ، لوگ ہدیہ بھی دیتے ہیں لیکن میں کوئی مطالبہ نہیں کرتا ہوں وہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ لوگ مجھے دیکھ کرخوش ہوجاتے ہیں اور میری عزت بھی کرتے ہیں۔انہوں نے سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کے لئے نکلنے کی تیاریوں کے بارے میں کہا کہ میں رات 2 بجے رات بستر سے اٹھتا ہوں، پھر منہ ہاتھ دھو کے ڈھول کو صاف کرتا ہوں اور ڈھائی بجے لوگوں کو جگانے کے لئے باہر نکلتا ہوں۔ان کا کہنا تھامیں ڈھول بجا کر اور ”وقت سحر“ کی آوازیں دے کر لوگوں کو جگاتا ہوں، کافی بڑے علاقہ کا چکر کاٹ کر لوگوں کو جگاتا ہوں۔محمد مشکور نے کہا کہ لوگوں کے پاس جدید دور کی سہولیات جیسے موبائل فون، لاﺅڈ اسپیکر وغیرہ سہولیات ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ ہمیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سال گذشتہ لاک ڈا¶ن کی وجہ سے میں نہیں آسکا تو لوگوں نے اس کے بارے مجھ سے پوچھا۔ان کا کہنا تھا کہ میں سال کے باقی گیارہ ماہ گھریلو کام کرتا ہوں لیکن میں نے یہ ایک ماہ اسی کار ثواب کی انجام دہی کے لئے مخصوص رکھا ہے ۔موصوف سحر خوان نے کہا کہ پہلے میرا بڑا بھائی یہ کام کرتا تھا اور میں اس کے ساتھ آیا کرتا تھا اور اب میں خود یہ کام کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے کے کئی لوگ یہاں مختلف علاقوں میں جا کر یہ کام انجام دیتے ہیں۔فیاض احمد نامی ایک شہری نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ سحر خوانوں کی طرف سے ڈھول بجا کر جگانے میں کچھ الگ ہی لطف ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ روایت اب ہمارے معاشرے کا ایک حصہ بن گئی ہیں جس کو برقرار رکھا جانا چاہئے ۔ان کا کہنا تھا کہ سحر کے وقت ڈھول بجنے کی آواز سنتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا سحری کے متبرک ترین وقت پر بیدار ہو رہی ہے ۔